حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،دہلی/ مولانا رضی زیدی پھندیڑوی نے ولادت با سعادت حضرت معصومہ قم کی مناسبت سے اپنے ایک تحریری بیان میں کہا کہ عالم ملک و ملکوت کی عظیم المرتبت خاتون کہ جس نے ایسے ماحول میں پرورش پائی جہاں والدین اور بہن بھائی سب کے سب اخلاقی فضیلتوں کی معراج پرہوں اور اس خانوادہ کےتمام افراد زہد، تقوی، عبادت، صداقت ، شجاعت، رحمت و کرم، مشکلات و مصائب میں صبر و استقامت، علم، حلم، جود و سخا، پارسائی ، عفت، پاکدامنی، تسبیح، تحلیل، ذکر اور یاد الہی کی ابھری ہوئی تصویر ہیں۔ جس خانوادہ کے سب افراد برگزیدہ اور ہدایت کے رہبر، امامت کے درخشان گوہر اور بشریت کے ہادی ہوں اور خود جس کا مرتبہ عالم ملک و ملکوت میں درخشان گوہر کی طرح تابناک ہو ایسی خاتون کے بارے میں کچھ کہنا یا لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔
حضرت معصومہ قم وہ خاتون ہیں جن کا سرچشمہ فیض دائما جاری و ساری ہے جن پر خداوند عالم، انبیاء کرام، ائمہ طاہرین، اولیاء الہی، اور زمین و آسمان کے رہنے والے درود و سلام بھیجتے ہیں ۔
مختصر تحریر میں اس عظیم المرتبت خاتون کے بارے میں کیا تحریر کیا جائے جس کی بارگاہ سے لوگوں کوعلم کی دولت مل رہی ہے۔ پوری دنیا سے تشنگان علوم محمد وآل محمد اپنی تشنگی کو دور کرنے اور سیراب ہونے کیلئے آشیانہ آل محمد کی طرف رخ کرتے ہیں اور حضرت کے در سے فیضیاب ہوتےہیں۔ جب ان کا مرور زمان ا ور دوری وطن سے دل گھبراتا ہے اور پردیس میں ماں کی یاد ستاتی ہے تو اپنے اپنے مسکن کو ترک کرکےآپ کےحرم میں حاضر ہوجاتے ہیں اور قدری اس ملکوتی سائے میں بیٹھ جاتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ استجابت کے سمندر سے شفقت اور محبت کی نہریں پھوٹ نکلی ہوں۔ گھبراہٹ اور اداسی دامن چھوڑ کر اپنا راستہ اپنا لیتی اور پردیس میں خانوادہ سے دوری کا احساس محو ہوجاتا ہے۔ جب کسی کو خرچ میں مشکلات پیش آتی ہیں تو خاموشی سے کریمہ اہلبیت کی ضریح کو پکڑکر اپنی ناداری کا تذکرہ کرتا تو کچھ وقت کے اندر حضرت کی طرف سے ضرورت کے مطابق عطا ہوجاتا ہے۔ بہت سے طلاب نے اپنے اسی طرح کے واقعات نقل کیے اور کہا کہ مجھے کچھ ضرورت تھی میں حرم میں حاضر ہوا اور دعا کی تو جتنی ضرورت تھی اتنا ہی مجھے مل گیا۔ ظاہر سی بات ہے جس بی بی کے حرم میں حاضری کے بعد ماں جیسی محبت کا احساس ہوتا ہو تو وہ بی بی اپنے چاہنے والوں کو پریشان کیسے دیکھ سکتی ہیں در حقیقت قم المقدسہ میں طلاب، علماء اورفضلا کا وجود صرف کریمہ اہلبیت سلام اللہ علیہا کی کرم فرمائی سے ہے ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ایران کی پلیس بغیر اقامت والے طلاب کو نکال رہی تھی تو ایک طالب علم نے آیۃ اللہ مفتی سید طیب جزائری موسوی صاحب نوراللہ مرقدہ سے درد دل کیا تو انہوں نے حرم کی طرف اشارہ کرکے فرمایا جب تک یہ بی بی راضی ہیں تو اس شہر اور ملک سے کوئی نہیں نکال سکتا گویا آپ کی میزبان کریمہ اہلبیت، ساتویں امام باب الحوائج حضرت موسیٰ بن جعفر علیہما السلام کی بیٹی ہیں پریشان ہونے والی بات نہیں ہے۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا علمی اور اخلاقی مقام ان کے نام اور القابات: طاہرہ ، پاک و پاکیزہ، حمیدہ، جس کی ستائش اور تعریف ہوئی ہے، بِرّہ ،نیکوکار، رشیدہ، ہدایت یافتہ و عاقلہ، تقَیہ، پرہیزگار، رضّیہ، خدا سے راضی، مرضیّہ، ان سے خدا راضی و خوشنود ہے، صدیقہ، بہت زیادہ سچی خاتون، رضیّہ مرضّیہ، وہ خاتون جو خدا سے راضی ہے اور خدا بھی ان سے راضی و خوشنود ہے۔ سے لگایا جا سکتا ہے۔ حضرت معصومہ قم بھی ثانی زہرا حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی مانند عالمۃغیر مُعَلَّمہ ہیں (ایسی عالمہ کہ جن کا کوئی استاد نہیں ہے)حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا علم ، تقوا اور اخلاقی فضائل کا سرچشمہ ہیں۔
کیوں نہ آپ ان صفات کا سرچشمہ ہوں جبکہ آپ سلام اللہ علیہا اور دوسرے بہن اور بھائیوں کی سرپرستی اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری امام ہفتم علیہ السلام کی شہادت کے بعد حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے سنبھالی۔ امام رضا علیہ السلام کی خصوصی توجہات کی وجہ سے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کےتمام فرزندان اعلیٰ علمی اور معنوی مراتب پر فائز ہوئے اور اپنے علم و معرفت کی وجہ سے مشہور و معروف ہوگئے۔
معصومہ قم کی علمی مزلت کا اندازہ اس روایت سے لگایا جاسکتا ہے:
ایک روز اہلبیت علیہم السلام کے شیعوں کا ایک گروہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں ملاقات کی غرض سے مدینہ منورہ پہنچا تو امام علیہ السلام سفر پر تشریف لے گئے تھے اور یہ لوگ آپ (ع) سے کچھ سوالات بھی پوچھنا چاہتے تھے۔ حضرت کےگھر سے آپ کی نو عمربچی (حضرت معصومه سلام الله علیہا)نے وہ سوالات طلب فرمائے اور ان کے جوابات لکھ کر واپس کردیے جب ان لوگوں نے اپنے سوالات کے جوابات کا مشاہدہ کیا بہت خوش ہوئے اور نہایت تشکر اور امتنان کے ساتھ مدینہ سے واپس ہوگئے اتفاق سے راستے میں ان کی ملاقات امام موسی کاظم علیہ السلام سے ہوئی اور انہوں نے اپنا ماجرا امام علیہ السلام کو کہہ سنایا۔ امام (ع) نے سوالات اور جوابات کا مطالعہ کیا اور فرمایا: فداھا ابوھا، فداھا ابوھا، فداھا ابوھا باپ اس پر فدا ہو - باپ اس پر فدا ہو باپ اس پر فدا ہو۔
آپ کے وجود کی برکت سے اللہ نے قم کو تقدس عطافرمایااور اہلبیت علیہم السلام نے اپنا حرم قرار دیا ہے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: " الا انَّ حرمى و حرم ولدى بعدى قم" آگاہ رہو کہ میرا حرم اور میرے بعد آنے والے رہبروں کا حرم قم ہے۔ ( بحارالانوار ،ج ٦٠ ،ص ٢١٦) امام صادق علیہ السلام نے اہل رے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ... الا لاميرالمؤمنين عليه السلام حرماً و هو الكوفه الا و انَّ قم الكوفة الصغيرة ألا ان للجنة ثمانيه ابواب ثلاثه منها الى قم... " حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے لئے ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے۔ جان لو کہ قم ہمارا چھوٹا کوفہ ہے، جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں۔
آخر میں اپنے چھوٹے قارئین کی خدمت میں حضرت کی ولادت اور شہادت کی تاریخیں والدین کے اسماء کے ساتھ تحریر کر رہا ہوں امید ہے یادآوری میں مددگار ثابت ہوگا۔ حضرت سلام الله علیہا یکم ذی القعدہ ۱۷۳ ہجری میں سرزمین مدینہ منورہ پر پیدا ہوئیں اور ۲۸ سال کی مختصر سی زندگی میں دس یا بارہ ربیع الثانی ۲۰۱ ہجری میں شہر قم میں اس دار فانی سے دار بقا کیطرف کوچ کرگئیں ۔آپ کے والد ماجدحضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور والدہ ماجدہ حضرت نجمہ خاتون ہیں۔ والد کی شہادت کے بعد آپ کے بھائی حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے تعلیم و تربیت کی ذمہ داری نبھائی۔ میں اس مبارک موقع پر تمام محبان اہلبیت علیہم السلام کی خدمت میں حضرت فاطمہ معصومہ قم سلام اللہ علیہم السلام کی ولادت کی مبارک باد پیش کرتاہوں اور پروردگار کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ پالنے والے اس عظیم المرتبت بی بی کے صدقہ میں تمام مؤمنین کی مال، جان، عزت اور ناموس کی حفاظت فرما ، اور قم المقدسہ، نجف و۔۔۔ میں جویندگان علم کو علم کی دولت کے ساتھ عمل کی ثروت سے بھی مالا مال فرما ، اس دنیا سے کرونا جیسی مہلک وبا کا خاتمہ فرما اور آخری حجت کے ظہور میں تعجیل فرما آمین والحمد للہ رب العالمین۔